عنوان : سمجھوتہ
دل دہلا دینے والی ایک ماں کی درد بھری سچی کہانی
سمجھوتہ ایک سچ کہانی۔۔۔ دل دہلا دینے والی ماں بیٹیوں کی داستان
وہ گلی کی نُکڑ پہ کھڑی اپنی معصوم بیٹیوں کو اپنے آنچل سے چھپانے کی کوشش کر رہی تھی ۔ موسم پہلے سے کہیں زیادہ شدت اختیار کر چکا تھا ۔برستی بارش میں بھی کوئی اہل دل اس کی آنکھوں سے نکلنے والے آنسوؤں کے پیچھے چھپے درد کو محسوس کر سکتا تھا۔
وہ تین سال کی تھی جب اس کی ماں اسے اس دنیا میں بے یارو مدد گار چھوڑ کر اللہ کی امان میں چلی گئی تھی ۔والد صاحب اپنی بھاوج کے ہاتھوں میں دے کر دوسری شادی کر کے آباد ہو گئے ۔ زندگی کے ہر ظلم سے آشنا وہ معصوم ابھی چودہ سال کی ہی ہوئی تھی کہ چچا اسے جوئے کی شرط میں ہار گیا ۔
محض 1500روپے میں اس کی زندگی کی ڈور اس سفاک معاشرے نے ایک شرابی کے ہاتھ سونپ دی ۔سولہ سال کی عمر میں جب بیٹی کی ماں بنی تو خود کو بھول کر بیٹی کے لیے جینے لگی ۔
ہر روز کھانے والی مار اور نئے نئے زخموں سے تنگ آ کر ایک روز تین بیٹیوں کو لیے جب چچا کے در پر دستک دی تو دھتکار دی گئی ۔ ارے تُو تو ہے ہی ایسی اگر ایسی نہ ہوتی تو اپنے شوہر کے ساتھ رہتی۔۔
اس کے ہر حکم کو سر آنکھوں پہ رکھتی ارے کلموہی اور نہیں تو اپنی بیٹیوں کے بارے میں سوچ اور نہیں تو انہیں باپ کے ساۓ سے کیوں محروم کرنا چاہتی ہے حالات سے سمجھوتہ کرنا سیکھ؟؟ نہیں تو تیری بیٹیاں بھی تیری طرح در در کی محتاج ہو جائیں گی ۔
ان الفاظ کی گونج اس کے کانوں میں اس لاٹھی سے زیادہ تکلیف دہ تھی جو ابھی بھی اس کے جسم پر اپنی حیوانیت کے نشان چھوڑ رہی تھی ۔ رات کب بے سدھ گزری پتا نہیں چلا ۔صبح اپنی بچیوں کی بھوک کی وجہ سے بلکتی آوازوں پر ہوش آئی تو ایک فرشتے کی طرح پر پھیلا کر انھیں خود میں سمو لیا۔
یعنی سمجھوتہ کر لیا اس نے وقت اپنی حدت دکھاتے ہوۓ گزرتا رہا ہر آۓ دن اک نئے زخم کے نشتر نے لہو لوہان کیا لیکن سمجھوتہ کر لیا ۔ تاریخ کے کیلنڈر پر دس سال گزر چکے ہیں ۔
جب رات کے اس پہر اس کے دروازے پر دستک ہوتی ہے ۔بخار سے لت پت جسم گھسیٹتے وہ دروازے تک پہنچی ہی تھی کہ دھڑام سے کسی نے دروازہ کھولا تھا ۔ تین آدمی اس کے گھر میں داخل ہو چکے تھے ۔اچھا تو یہ ہے وہ لڑکی جس کا اس کے باپ نے سودا کیا ہے ۔
الفاظ تھے یا تیر جو کانوں کو چھلنی کر رہے تھے ۔ ارے کیا کر رہے ہو کون ہو تم لوگ چھوڑو میری بیٹی کو ۔ ماں بچاو مجھے ماں۔۔۔۔ اپنے جگر گوشے کو ان درندوں کے ہاتھوں نہیں بکنے دوں گی۔۔؟؟
میں ایک ملکوتی طاقت نے اس کا ہاتھ تھاما تھا ۔ ایک ہی وار میں تینوں کے سینے میں خنجر گھونپ چکی تھی ۔ یک لخت وقت نے پلٹا مارا تھا تیز ہوا کے جھونکے نے اسے حقیقت کی دنیا میں لا کھڑا کیا تھا ۔
ماں اب ہم کیا کریں گے کیا ہمیں پولیس پکڑ کر لے جاۓ گی کیا ۔ ایک گاڑی ان کے پاس آکر رکی تھی اچھا تو آپ ہیں وہ جنھوں نے فون کیا تھا ۔ جی میں ہی ہوں بتائے کیا کہنا چاہیں گی ۔
بس گارنٹی چاہیے آپ سے ایک کہ میری بچیوں کو دارالامان میں چھوڑنے کے بعد مجھے گرفتار کر لیجیے گا۔ بس بیٹیوں کی چیخو پکار اور آہ و بکا کے بعد وہ گاڑی میں بیٹھ چکی تھی ۔ لیکن آج اس کے چہرے پر کوئی پشیمانی نہیں تھی ۔۔؟
کیونکہ ساری زندگی جس سمجھوتے کو کرتے کرتے اس نے خود کو بے مول کر دیا تھا آج ایک فیصلے نے اس کی اولاد کو سمجھوتے سے بچا لیا تھا ۔ کیونکہ ایک عورت بھلے سمجھوتہ کر لے۔۔
لیکن ایک ماں کبھی بھی اپنی اولاد کی عزت پر سمجھوتہ نہیں کر سکتی۔😢۔
ازقلم: حبیبہ اکرم بیہ
No comments:
Post a Comment